بوڑھے ماں باپ
"بوڑھے ماں باپ"
کسی بوڑھے برگزیدہ درخت کی بیرونی چھال جو اپنے اندر موجود تنے کو موسم کی تلخیوں اور سختیوں سے بچاتی ہے اور اسے مضبوط کھڑا رکھتی ہے لیکن اس درخت اور اس سماج کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، جب بھی درخت اپنی ایک دھائی پوری کرتا ہے تو وہ اسے زبردستی خود سے جدا کر دیتا اور بعض دفعہ کوئی اپنے لاوا اگلتے ذہن کے ساتھ آتا ہے اور اسے وقت سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکتا ہے۔
اس نفسا نفسی کی دنیا میں آدمی تند و تیز حالاتِ زندگی ، ذمہ داریوں ، اولاد کی پرورش اور شریکِ حیات کی من مانیوں سی بنی ہوئی کَشتی میں سوار ہو کر اپنے پیاروں سے ہی دور چلا جاتا ہے ، ایک ایسی تیرتی ہوئی کَشتی جس کی مسافت میں کوئی ٹاپو یا جزیرہ نہیں ہوتا جہاں رک کر وہ پیچھے چھوڑے گئے رشتوں کو دوبارہ سوار کر سکے۔
اگر ہم اعتدال پسندی پر عمل کرتے ہوئے والدین کے حقوق پورے کرتے رہیں جو کہ ہماری شریکِ حیات کی فرمائشوں کے مقابلے میں ایک چوتھائی بھی نہیں بنتے تو ہمارے معاشرے میں اولڈ ہومز رفتہ رفتہ اپنی شناخت کھو دیں گے ۔ بڑھاپے میں والدین فقط ہم سے دو وقت کا کھانا اور دن بھر کی مصروفیات میں سے بس آدھا گھنٹہ مانگتے ہیں جس وقفے میں وہ آپ کے وجود کےلمس کو اپنی انگلیوں کے پوروں کی یاداشت میں سمونا چاہتے ہیں ، جس طرح آپ آفس سے آکر اپنے بچوں کو ٹائم دیتے ہیں اسی طرح بوڑھے والدین بھی آپ کی توجہ اور چند باتوں کیلئے آپ کی راہ دیکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بوڑھے ماں باپ بھی اُسی بزگزیدہ درخت کی بیرونی چھال کی طرح ہوتے ہیں لیکن ہم اپنی انا اور ذاتی مفاد کی خاطر انہیں خود سے اتار پھینکتے ہیں ، حالانکہ وہ ہماری ذات کو کوئی نا کوئی فائیدہ ہی پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
از 🖋️ گوہر سلطان گوہر
ملتان پاکستان
Saba Rahman
26-Jul-2022 11:21 PM
Nice
Reply
Khan
26-Jul-2022 10:50 PM
Osm
Reply
Aniya Rahman
26-Jul-2022 04:37 PM
Nyc
Reply